کرکٹ سے جڑی ہر خبر اور زبردست ویڈیوز کے لیے ہمارا پیج لایک کریں
پاکستان میں کرکٹ کی جانب سے ٹھکرائےگئے چند نادر ہیروں میں سے ایک قومی ٹیم کے سابق فاسٹ باؤلر فاروق حمید نے کہا کہ انہوں نےسیاست کے سبب مایوس ہو کر 1969ء میں 25 سال کی عمر میں کرکٹ چھوڑ دی تھی۔
انٹرنیشنل کیریئر میں اپناواحد میچ آسٹریلیا کیخلاف کھیلنے والے فاروق حامد نے واحد وکٹ 1964ء میں میلبورن کے مقام پر این چیپل کی لی تھی۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں بتا یا ہے کہ میرے تمام ساتھی کھلاڑی جانتے ہیں کہ مجھ سے میرے کپتانوں نے کس طرح کا رویہ رکھا اور اس میں سرفہرست عظیم بلےباز حنیف محمد اور
انکے بھائی وزیر محمد ہیں جنہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میں دورہ آسٹریلیا کے بعد دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ نہ کھیل سکوں۔ انہوں نے کہا کہ دورہ نیوزی لینڈ پرجب میں نے ویلنگٹن کیخلاف میچ میں
صرف 16رنز دیکر 7 وکٹیں لیں تو انہیں صرف 53 رنز پر 10 اوورز کے اندر ڈھیر کردیا تھا لیکن ہر کسی کو حیرت ہوئی کہ دو دن بعد اسی مقام پر کھیلے گئےمیچ میں مجھے
پاکستانی ٹیم کا حصہ نہیں بنا یا گیا، نہ ہی اس سیریز میں نیوزی لینڈ کیخلاف کھیلے گئے بقیہ دونوں ٹیسٹ میچوں میں مجھے ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔ انہوں نےماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے کہا کہ 1963ء میں
انگلینڈ کادورہ کرنیوالی پاکستان ایگلٹس کامیں بھی رکن تھا، میں نے 3 اوورز میں 5 وکٹیں لیں لیکن کپتان وزیر محمد نے مجھے مانچسٹر میں لنکا شائر کیخلاف دوبارہ باؤلنگ نہ دی،
بعدازاں سیکریٹری ایم سی سی ہوورڈ نے میرے منیجر سےکہا کہ آج فاروق میچ میں ٹرومین سے ایک گز تیز باؤلنگ کر رہے تھے۔ انہوں نے مایوس کن انداز میں کہا کہ یہ اور اس طرح کے
دیگر رویوں سے دلبرداشتہ اور مایوس ہو کر انہوں نے نوجوانی میں کرکٹ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اپنےخطر ناک باؤنسر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ
اپنی کرکٹ کی عروج کےدنوں میں ان کی باؤنسر بہت تباہ کن تھی اور بہت سے بہترین بلے بازوں کیلئے اسے کھیلنا ناممکن تھا، قائداعظم ٹرافی کےمیچ میں انکا باؤنسر
وزیر محمد کےمنہ پر لگا تھا جس سے انکے سامنےکے چاروں دانت ٹوٹ گئے تھے اور ہونٹوں پر 10 ٹانکے آئے تھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ 1969ء میں قائد اعظم ٹرافی کے فائنل میں
انکا سامنا کرتے ہوئے حنیف محمد تیسری ہی گیند پر ان سوئنگ یارکر پر باؤلڈ ہوگئے تھے، سر ڈان بریڈ مین، ظہیر عباس، امتیاز احمد سمیت دیگر بین الاقوامی کرکٹ کی ہستیاں انہیں
اس وقت دنیا کا تیز ترین باؤلر اورویسٹ انڈیز کے چارلی گریفتھ سے بھی تیز سمجھتی تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ صف اول کے متعدد بلےباز انکے باؤنسر سےڈرتے تھے
لیکن سابق ٹیسٹ بلےباز محمد الیاس ان چند کھلاڑیوں میں سے تھے جو بہتر تکنیک کی وجہ سے انکے باؤنسر کا سامنا کر پاتےتھے، جب 1963ء میں کامن ویلتھ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو
گریفتھ کے خلاف ہُک کرنیوالے بہترین بلےباز ثابت ہوئے تھے۔ فاروق نے بتایا کہ مذکورہ دورے میں انہوں نے روہن کنہائی کو اپنے باؤنسر سےزمین بوس کر دیا تھا،
بعدازاں کمنٹیٹرز نے کہاتھا کہ میں گریفتھ سےبھی تیز باؤلنگ کرتا ہوں، میرے خیال سے میں اس وقت 110-115 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے باؤلنگ کرتا تھا۔ سابق فاسٹ باؤلر نے بتایا کہ
حتیٰ کہ دورہ آسٹریلیا کےدوران سر ڈان بریڈ مین نےبھی بحیثیت فاسٹ باؤلر ان کو سراہا تھا اور ایڈیلیڈ میں سنچری پر تعریف بھی کی تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انکا جارحانہ رویہ ان کے مختصر
بین الاقوامی کیریئر کی وجہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہر فاسٹ باؤلر کو جارح مزاج ہونا چاہیے، یہ ٹیم مینجمنٹ کا کام ہے کہ وہ فاسٹ باولرز کو احتیاط سے استعمال کریں۔
ان کا کہنا تھاکہ وہی سیاست اب بھی جاری ہےلیکن یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آل راؤنڈرعمران خان ہمارے وزیراعظم ہیں اور امید ہے کہ انکے زیر سایہ کرکٹ بہتر ہو گی،
تاہم اگر وہ بھی ہمارےکرکٹ کے نظام کو ٹھیک نہ کر سکے تو صرف خدا ہی ہماری کرکٹ بچا سکے گا۔ سابق کرکٹر نے ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کرنے کے فیصلے کوتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ
اس سے پاکستان کرکٹ تباہ ہو گی اور اسے ختم کرنے کےبجائے ڈیپارٹمنٹس کو انڈر 19 اور انڈر16 ٹیمیں بنانے کی ہدایت کرنی چاہیے تھی کیونکہ انکے پاس پیشہ ورانہ انداز میں
کھلاڑیوں کی صلاحیتیں نکھارنے کانظام موجود ہے جو ایل سی سی اے اور کے سی سی اے کے کے پاس نہیں، ڈیپارٹمنٹل کرکٹ پاکستان کرکٹ کی ریڑھ کی ہڈی ہے اوراسےہر حال میں بحال ہونا چاہیے۔
انکا کہنا تھا کہ قومی ٹیم اسوقت بین الاقوامی کرکٹ میں اوسط درجے کی کار کردگی دکھا رہی ہے اور ہمیں یہ توقع نہیں کرنہی چاہیےکہ یہ جلد ورلڈ کلاس ٹیم میں تبدیل ہو جائیگی،
ہمارے پاس کوئی بھی تیزرفتار باؤلر نہیں، نسیم شاہ تیز ضرورہیں لیکن اگر معیار کی بات کی جائے تو وہ ایک اوسط درجے کے باؤلر ہیں۔