کر کٹ سے جڑی ہر خبر اور زبردست ویڈیوز کے لیے ہمارا پیج لائیک کریں شکریہ
مایہ ناز کرکٹر شاہد آفریدی نےاپنی کتاب میں جہاں کئی راز فاش کیے تھے وہیں اپنے کچھ تکلیف دہ واقعات بھی بیان کیے ہیں جواس سے پہلے ان کی زبان پر کبھی نہ آ سکے۔ ایسا ہی ایک دردناک واقعہ بیان کر تے ہوئے شاہد آفریدی لکھتے ہیں کہ
بالآخر میری محنت کاثمر مجھے مل گیا تھا اور میرا نام ویسٹ انڈیز کے دو رے پر جانے والی انڈر 19ٹیم کے ممکنہ کھلاڑیوں میں شامل کر لیا گیا تھا۔ ہارون رشید اس وقت سیلیکٹر تھے اور
محمدوسیم کپتان۔ کراچی کی ایک گرم دوپہر میں مجھے ٹرائیل کے لیے بلا یا گیا، جو میں نے پاس کرلیا۔ اس ٹرائیل میں میں بالکل بھی نروس نہیں تھا بلکہ حقیقت تویہ تھی کہ میں اپنے پہلے
غیر ملکی دو رے کے لیے بہت پرجوش تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس دورے کی صورت میں مجھے پہلی بار بیرون ملک جانےکا موقع مل رہا تھا۔“ شاہد آفریدی نے لکھا کہ ”میں یہاں ایک ایسی چیز بیان کر نا چاہتا ہوں جو
اس سے پہلے میں نے کبھی کسی سےنہیں کہی۔ یہ بہت ذاتی نوعیت کی بات ہے، جس سے آپ کو میرے خیالات اور کرکٹ سےمیری لگن کے بارے میں جاننے کو مدد ملے گی۔
میرے والد اس وقت تک ایک کامیاب کارو باری شخص بن چکے تھے تاہم ایک دن اچانک مارکیٹ کریش کر گئی اور انہیں 1کروڑ رو پے سے زائد کا نقصان ہو گیا۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے۔ ہم گلشن میں نیا گھر خرید چکے تھے اور ایک کار بھی۔ ہمارے پاس ہر وہ مناسب لگژری موجود تھی جس کی کسی فیملی کو ضرورت ہو تی ہے۔
حالات بالکل ٹھیک چل رہے تھے اورمیری کرکٹ میں کارکردگی بہتر سےبہتر ہو رہی تھی اور پھر اچانک مارکیٹ کریش ہو نے کا واقعہ ہو گیا اور راتوں رات ہر چیز بدل کر رہ گئی۔“
شاہد آفریدی نے مزید لکھا کہ ”اس ساری صورتحال میں جس بات نے مجھے سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی، اپنے والد کے ہاتھوں ہونے والی پٹائیوں سےبھی زیادہ، وہ بات اپنے ماں باپ کو
تمام رات نماز پڑھتے اور رو روکر دعائیں مانگتے ہوئے دیکھنا تھی۔ طارق بھائی، جو میرے لیے صبر وہمت کی مثال تھے، وہ بھی اس واقعے کے بعد اکثر رو دیتے تھے اور کہتے تھے کہ
ہم کیسے اس نقصان سے نکل پائیں گے۔ یہ وہ بد ترین دن تھے جو میری فیملی نے کبھی زندگی میں دیکھے۔ ہم گیارہ بہن بھائی تھے۔ کیسےمیری بہنوں کی شادیاں ہوں گی؟ ہماری تعلیم کیسے مکمل ہو گی؟
ان دنوں یہ کچھ ایسے سوالات تھے جن کا جواب دینا کچھ آسان نہ تھا۔ بطور فیملی ہم نے کبھی پیسے کے متعلق بات نہیں کی تھی لیکن اس صورتحال سےسب کچھ بدل کر رکھ دیا اور میرے والدین نے
گھر فروخت کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا لیکن پھر بھی نقصان کی رقم پوری نہیں ہو تی۔ ان دنوں میں جذباتی طور پر ہم سب مضمحل ہو چکے تھے، خاص طور پرجب میں اپنے ماں باپ کو
روتے اور آسمان کی طرف تکتے دیکھتا تو ٹوٹ کر رہ جا تا۔ یہ وہ منظر تھا جو میں ہر رات دیکھتا تھا۔ وہ جب نماز پڑھنے اور
دعائیں مانگنے کے بعد بستروں میں چلے جاتے تو میں ان کے جائے نماز کو ہاتھ لگاتا جو ان کے آنسوؤں سے تر ہو چکے ہوتے تھے۔